جالیوں پر نگاہ جمی ہے
فاصلوں کو خدارا مٹا دو رخ سے پردہ اب اپنے ہٹا دو
اپنا جلوہ اسی میں دکھا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
غوث الاعظم ہو، غوث الوریٰ ہو، نور ہو نورِ صلّ علیٰ ہو
کیا بیان آپ کا مرتبہ ہو دستگیر اور مشکل کشا ہو
آج دیدار اپنا کرا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
ایک مجرم سیاہ کار ہوں میں ہر خطا کا سزاوار ہوں میں
میرے چاروں طرف ہے اندھیرا روشنی کا طلبگار ہوں میں
اِک دیا ہی سمجھ کر جلا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
ہر ولی آپ کے زیر پا ہے، ہر ادا مصطفیٰ کی ادا ہے
آپ نے دین زندہ کیا ہے ڈوبتوں کو سہارا دیا ہے
میری کشتی کنارے لگا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
شدتِ غم سے گھبرا گیا ہوں، اب تو جینے سے تنگ آ گیا ہوں
ہر طرف آپ کو ڈھونڈھتا ہوں اور اک اک سے یہ پوچھتا ہوں
کوئی پیغام ہو تو سنادو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
وجد میں آئے گا سارا عالم جب پکاریں گے یا غوث اعظم
وہ نکل آئیں گے جالیوں سے اور قدموں پہ گر جائیں گے ہم
پھر کہیں گے کہ بگڑی بنا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
سن رہے ہیں وہ فریاد میری خاک ہو گی نہ برباد میری
میں کہیں بھی مروں شاہِ جیلاں روح پہنچے گی بغداد میری
مجھ کو پرواز کے پر لگا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
فکر دیکھو خیالات دیکھو یہ عقیدت یہ جذبات دیکھو
میں ہوں کیا میری اوقات دیکھو سامنے کس کی ہے ذات دیکھو
اے ادیؔب اپنے سر کو جھکا دو جالیوں پر نگاہیں جمی ہیں
Comments
Post a Comment